سلطنت ابھیر
سلطنت ابھیر ابھیر | |
---|---|
248 عیسوی–315 or 415 عیسوی[1] | |
دار الحکومت | تریکت[2] |
مذہب | وید ہندو مت بدھ مت |
حکومت | بادشاہت |
جنک (بادشاہ یا سرپرست اعلی)[حوالہ درکار] | |
تاریخی دور | عہد کلاسیکی |
• | 248 عیسوی |
• | 315 or 415 عیسوی[1] |
موجودہ حصہ | بھارت |
سلطنت ابھیر (انگریزی: Abhira Kingdom) کا ذکر ہندو مت کی مشہور اساطیری کتاب مہابھارت میں ہے۔ یہ سرسوتی ندی کی دو سلطنتوں میں سے ایک ہے۔ ان دونوں سلطنتوں پر ابھیرا خاندان کا تسلط تھا۔ انھیں کئی جگہ سدھیرا (سدھیر) بھی لکھا گیا ہے۔ ابھیرا سلطنت میں سور سلطنت کا حصہ بھی شامل تھا اور دونوں پر ابھیر خاندان کی ہی حکمرانی تھی۔ ابھیر سلطنت آج کے بھارت کے گجرات کا شمالی حصہ اور راجستھان کا جنوبی خطہ میں پھیلی ہوئی تھی۔ ابھیر/ابھیرا/اہیر/اہیرا سلطنت کا بانی سوادت کو مانا جاتا ہے۔[3][4]
مہا بھارت میں ابھیر سلطنت کا تذکرہ
[ترمیم]مہا بھارت کی جنگ میں ابھیر خاندان دریودھن کا حامی تھا اور ان کے شانہ بشانہ جنگ میں شریک تھا۔[5][6] گوپا یا گوپ، جنہیں کرشن نے اس وقت مدد کی درخواست کی اور دریودھن کے لڑنے کی گزارش کی جب وہ خود ارجن کی مدد کر رہے تھے، وہ گوپ دراصل یادو تھے اور یادو ابھیر ہی سے نکلے تھے یا ابھیر ہی تھے۔[7][8][9]
کہیں کہیں ابھیروں کو وراتا کشتری بھی کہا گیا ہے۔ جب کرشن کی موت کے بعد ارجن اور پانڈو دوارکا سے لوٹ رہے اور ان کے ساتھ کرشن کے اہل خانہ بھی تھے تب ہی ابھیروں نے ان پر حملہ کر دیا تھا اور ان کی کل سواری لوٹ لی تھی۔ ابھیروں نے ارجن کا راستہ روک لیا اور دوارکا میں بچی کھچی دولت بھی چھین لی اور پنجاب پہنچتے پہنچتے ساری عورتوں کو بھی حراست میں لے لیا۔ [10] ارجن کو لوٹنے والے ابھیر کورو کے مددگار تھے، جنہیں ابھیر، گوپا اور گوپال بھی کہتے ہیں۔[11] ان کا ہی ایک نام یادو بھی ہے۔ [12][13][14] انھوں نے مہابھارت کے اصلی ہیرو کو شکست دی تھی اور جب اس نے سری کرشن کے اہل خانہ کا راز کھول دیا تب ابھیروں نے سب کو حراست میں لے لیا۔[15]
مہاراشٹر کی ایک سلطنت
[ترمیم]ابھیروں نے مہاراشٹر میں بھی حکومت کی۔ ان کا علاقہ موجودہ ناسک، لتا[16] اور خاندیش تھا۔[17]
جنوبی ہندوستان کی سلطنت
[ترمیم]مورخ سدھاکر چٹوپادھیائے کے مطابق جنوبی ہند میں ایک حکومت تھی جو بہت وسیع و عریض تھی اور اسے ابھیرا کہا جاتا تھا۔[18]
حوالہ جات
[ترمیم]- ↑ Sudhakar Chattopadhyaya (1974)۔ Some Early Dynasties of South India۔ Motilal Banarsidass۔ صفحہ: 128–130۔ ISBN 978-81-208-2941-1۔ اخذ شدہ بتاریخ 25 ستمبر 2017
- ↑ B.H. Mehta۔ Gonds of the Central Indian Highlands Vol II۔ Concept Publishing Company۔ صفحہ: 569–۔ GGKEY:DDRXNHQXYN8۔ اخذ شدہ بتاریخ 26 ستمبر 2017
- ↑ Numismatic Society of India (1991)۔ The Journal of the Numismatic Society of India۔ 53۔ ISSN 0029-6066۔ اخذ شدہ بتاریخ 12 اپریل 2015
- ↑ The Journal of the Numismatic Society of India, Volume 53
- ↑ Man in India – Google Books۔ Books.google.co.in۔ 17 جولائی 2007۔ اخذ شدہ بتاریخ 18 اکتوبر 2011
- ↑ Man in India, Volume 54-page-39
- ↑ Man in India – Google Books۔ Books.google.co.in۔ اخذ شدہ بتاریخ 18 اکتوبر 2011
- ↑ Ethnic history of Gujarat – Popatlal Govindlal Shah – Google Books۔ Books.google.co.in۔ 13 فروری 2009۔ اخذ شدہ بتاریخ 18 اکتوبر 2011
- ↑ Ethnic history of Gujarat
- ↑ Social movements and social transformation: a study of two backward classes movements in India
- ↑ Ancient Nepal – D. R. Regmi, Nepal Institute of Asian Studies – Google Books۔ Books.google.co.in۔ 1 دسمبر 1973۔ اخذ شدہ بتاریخ 18 اکتوبر 2011
- ↑ Encyclopaedia of ancient Indian … – Subodh Kapoor – Google Books۔ Books.google.co.in۔ اخذ شدہ بتاریخ 18 اکتوبر 2011
- ↑ Social movements and social … – M. S. A. Rao – Google Books۔ Books.google.co.in۔ 14 دسمبر 2006۔ اخذ شدہ بتاریخ 18 اکتوبر 2011
- ↑ Social movements and social … – M. S. A. Rao – Google Books۔ Books.google.co.in۔ 14 دسمبر 2006۔ اخذ شدہ بتاریخ 18 اکتوبر 2011
- ↑ Yadavas through the ages, from … – J. N. Singh Yadav – Google Books۔ Books.google.co.in۔ 28 اگست 2007۔ اخذ شدہ بتاریخ 18 اکتوبر 2011
- ↑ By Sudhakar Chattopadhyaya (1974)۔ "Some Early Dynasties of South India"۔ History۔ Motilal۔ صفحہ: 129
- ↑ Subodh Kapoor۔ "Encyclopaedia of Ancient Indian Geography, Volume 1"۔ Geography۔ Cosmo Publications۔ صفحہ: 2
- ↑ By Sudhakar Chattopadhyaya (1974)۔ "Some Early Dynasties of South India"۔ History۔ Motilal۔ صفحہ: 129